ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو ایک انگوٹھی دی اور اسے کہا کہ اس انگوٹھی پر کوئی ایسی عبارت لکھوا کر لاؤ جسے میں خوشی میں پڑھوں تو غمگین ہو جاؤں اور اگر غم میں پڑھوں تو خوش ہو جاؤں۔
وزیر صاحب نے لکھوایا
“یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا”
اس عبارت پر غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ خوشی اور غم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں انسان خوشیوں کی بلندیوں پر ہوتا ہے وہاں ساتھ ساتھ غم بھی پل رہا ہوتا ہے اور جو انسان غموں کی بلندیوں پر ہوتا ہے اس کے ساتھ خوشیاں بھی پنپ رہی ہوتی ہیں۔ دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ دونوں طاقتیں برابر چلتی ہیں۔
بعض و اوقات کچھ غم ایسے ہوتے ہیں جن کا سوچ کر ہی ہم ڈر جاتے ہیں وہ ہمیں پہاڑ کی طرح نظر آتے ہیں اور بندہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ غم مجھ پر آگیا تو میں کہاں جاؤں گا، یہ دنیا میرے لیے تنگ ہو جائے گی، میں جیتے جی مرجاؤں گا۔ پھر ایک دن وہ غم آپ کی دہلیز کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، وہ غم آپ کے سر ہو جاتا ہے۔ جس میں آپ کے ماں باپ، اولاد میں سے یا فیملی ممبر میں سے کوئی ایسا فرد دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو آپ چند لمحے یا چند دنوں کے لیے حواس بھی کھو دیتے ہیں۔ آپ کو دنیا میں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ان کے دنیا سے جانے کے بعد آپ کو دنیا محض ایک تماشا نظر آتی ہے، ہر چیز بے رنگ لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن وقت اپنا عمل شروع کرتا ہے جیسے جیسے وقت گزرتا ہے آپ نارمل ہونا شروع ہو جاتے ہیں پھر سے دنیا کے مشاغل میں مصروف عمل ہو جاتے ہیں کیونکہ وقت ایک ایسا مرحم ہے جو آپ کے زخموں کو مندمل کرنا شروع کر دیتا ہے اور آپ چند ہی دنوں میں دوبارہ نارمل ہو جاتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے رشتے میں وفا نہیں تھی۔ دراصل اللہ عزوجل نے انسان کو جو بھولنے کی یہ صلاحیت عطا کی ہے وہی صلاحیت اسے زندہ رکھتی ہے ورنہ بندہ اپنی ماں یا اپنے باپ یا اپنی اولاد کے مرنے کے ساتھ ہی مر جائے۔
بندہ اپنے پیاروں کو کبھی نہ بھولتا اور انہیں یاد کر کے روز مرتا رہتا۔
اسی طرح زندگی میں دکھ پریشانیاں، خوشیاں، عہدے آزمائشیں سب وقتی ہیں۔ اس میں جس کا بھلا کر سکتے ہیں، عزت کر سکتے ہیں، آسانی پیدا کر سکتے ہیں اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے، ہمیں ضرور کرنی چاہیے۔
اللہ عزوجل اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں معاف فرمائے، ریاکاری سے بچائے، دین و دنیا کی سمجھ اور بھلائیاں عطا کرے۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
شاہد محمود